Sher Aya Sher Aya/جھوٹ کی سزا /شیر آیا شیر آیا

ایک نوجوان گڈریا دریا کے کنارے اپنی بھینسیں چرایا کرتا تھا ۔اسے عادت تھی کہ کبھی کبھی شرارت میں چلانے لگتا :
“شیر آیا شیر آیا! دوڑ کر میری مدد کو پہنچو ۔”
اس کے ارد گرد کھیتوں میں کام کرنے والے دوسرے لوگ جب اس کی آواز سنتے تو اپنی لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر اس کی جانب دوڑ پڑتے مگر جب وہ اس لڑکے کے پاس پہنچتے تو وہاں کوئی شیر یا جانور نہ دکھائی دیتا ۔تب وہ اس گڈریے سے پوچھتے کہ کہاں ہے شیر؟ تو گڈریا ہنس دیتا اور جواب میں کہتا کہ میں تو صرف شرارت کر رہا تھا ۔شیر اگر آبھی گیا تو اسے بھگانے کے لیے میں خود ہی کافی ہوں۔ مگر وہ یہاں آئے گا تو اپنی جان سلامت لے کر واپس نہ جا پائے گا۔
بہت بار اسی طرح ہوا ۔چند بار تو لوگ اس گڈریےکی پکار سن کر اس کی مدد کے ارادے سے وہاں پہنچ جاتے۔ مگر گڈریے کی روز روز کی شرارت سے وہ تنگ آگئے۔ اب وہ سب اس کی پکار کو جھوٹ سمجھنے لگے اور اس کے پکارنے پر بھی کوئی ادھر توجہ نہ دیتا۔
خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ایک دن سچ مچ کہیں سے شیر آگیا۔ جب اس نے بھیڑوں کا گلہ دیکھا تو خوش ہو گیا ۔اس نےآگے بڑھ کر ایک بھیڑ کو پنجا مارا۔بھیڑ کی گردن ٹوٹ گئی اوروہ وہیں پر ڈھیر ہو گئی ۔گڈریے نے مدد حاصل کرنے کے لیے بہت شور مچایا مگر ہر ایک نے سمجھا کہ وہ دوبارہ شرارت کر رہا ہے اور کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا۔
گڈریا لاٹھی لہراتا ہوا آگے بڑھا۔ تو شیر نے ایک ہی جست میں اس کی گردن مروڑ دی۔ بھیڑیں بھاگ رہی تھیں۔ اور شیر بے فکری سے ان کا شکار کر رہا تھا آخر سارے کا سارا گلہ شیر کا شکار بن گیا۔
سورج غروب ہو گیا۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ نہ گڈریا آیا نہ بھیڑوں کا گلہ۔ گڈریے کے رشتہ داروں نے رات بہت بے چینی سے گزاری اور صبح ہوتے ہی اسے ڈھونڈنے کو نکل کھڑے ہوئے۔ چراگاہ میں پہنچے تو مردہ بھیڑوں اور مرے ہوئے گڈریے کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔تمام لوگوں کو یہ واقعہ جان کر نہایت افسوس ہوا ۔ گڈریے کو تو اس کی جھوٹ کی سزا مل چکی تھی لیکن بھیڑوں نے مفت میں اپنی جان گنوا دی تھی۔
اخلاقی نتیجہ: جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں؛ ان کی بات پر کوئی بھی بھروسہ نہیں کرتا اور انہیں جھوٹ بولنے کی عادت کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *