ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں تین دوست رہتے تھے ۔وہ تینوں بے روزگار تھے۔ لہذا ایک دن ان تینوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی اور شہر میں جا کر روزگار تلاش کریں گے ۔پس ایک صبح وہ گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے راستے میں ایک جنگل میں پہنچے۔ چونکہ کافی دیر سے چل رہے تھے۔ لہذا چلتے چلتے تھک جانا ایک لازمی امر تھا۔ ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک سایہ دار درخت کے نیچے کچھ دیر رک کر آرام کریں گے۔
جو نہی وہ درخت کے نیچے پہنچے تو وہاں انہیں ایک اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلی دکھائی دی۔ اشرفیوں سے بھری تھیلی دیکھ کر وہ تینوں بہت خوش ہوئے اور فیصلہ کیا کہ ان اشرفیوں کو وہ آپس میں بانٹ لیں گے۔
کچھ ہی دیر بعد انہیں بھوک محسوس ہونے لگی۔ تو انہوں نے ایک دوست کو شہر سے کھانا لانے کے لیے بھیج دیا۔ شہر پہنچ کر اس دوست کے دل میں لالچ آ گیا۔ اس نے کھانے میں زہر ملا دیا تاکہ وہ اپنے دونوں دوستوں کو ختم کر کے ساری اشرفیاں خود حاصل کر سکے۔
دوسری طرف ان دونوں دوستوں کے دل میں بھی لالچ آ گیا تھا۔ لہذا ان دونوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ جو نہی ان کا دوست واپس آئے گا ؛وہ اسے مار دیں گے تاکہ اس کے حصے کی اشرفیاں بھی حاصل کی جا سکیں۔ اب جیسے ہی وہ دوست شہر سے زہر ملا کھانا لے کر اپنے دوستوں کے پاس واپس پہنچا ۔تو دونوں دوست یہ بہانہ بنا کر اس پر ٹوٹ پڑے کہ اس نے کھانا لانے میں دیر کر دی ہے۔
اس دوست سے جان چھڑا کر جب وہ دونوں کھانا کھانے کے لیے بیٹھے ۔تو زہریلا کھانا کھانے کے کچھ ہی دیر بعد زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ بھی موت کے گھاٹ اتر گئے۔ یوں تینوں ہی دوست اپنے لالچ کی وجہ سےاشرفیوں کی تھیلی مل جانے کے باوجود اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے بلکہ انہیں اپنی جان گنوانی پڑی ۔
اخلاقی نتیجہ:
لالچ بری بلا ہے۔
لالچ کی سزا مل کے رہتی ہے۔
لالچی انسان کو کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنے لالچ کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی چھوٹے سے گاؤں میں ایک غریب کسان رہا کرتا تھا ۔وہ دن رات کھیتی باڑی کرتا اس کے باوجود بڑی مشکل سے اپنے گھر کا گزارا کر پاتا تھا ۔اس نے اپنے گھر میں کچھ مرغیاں پال رکھی تھیں۔ جن کے انڈے اس کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں بہت مدد دیتے تھے ۔ ایک دن کھیتوں پر کام کرنے کے لیے جانے سے پہلے جب وہ ناشتہ کرنے بیٹھا تو اس کی بیوی نے اس سے درخواست کی کہ وہ مرغیوں کے ڈربے سے انڈے لے آئے ۔کسان جب ڈربے سے انڈے لینے آیا تو اسے ایک چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی ۔ابتدا میں تو اسے کچھ سمجھ نہ آئی لیکن جب اس نے اس چمکتی ہوئی چیز کو ہاتھ میں اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سونے کا انڈا ہے ۔کسان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔وہ دوڑتا ہوا اپنی بیوی کے پاس پہنچا اور اسے یہ انڈا دکھایا ۔دونوں ہی اس انڈے کو دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئے۔ اپنا شک دور کرنے کے لیے انہوں نے اس انڈے کو توڑ کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔اب تو دونوں کو ہی اس بات پر یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو یہ انڈا ضرور سونے کا ہے ۔دونوں سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ یہ کون سی مرغی ہے جس نے سونے کا انڈا دیا ہے ؟کسان کی بیوی نے بتایا کہ ان کے پاس ایک ہی ایسی مرغی ہے جس نے آج تک کوئی انڈا نہیں دیا ممکن ہے اس نے آج یہ پہلا انڈا دیا ہو جو سونے کا ہو۔کسان نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس مرغی کو باقی مرغیوں سے الگ کر دے تاکہ اپنے شک کی تصدیق کی جا سکے ۔اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور کسان نے اس سونے کے انڈے کو ایک محفوظ مقام پر چھپا کر رکھ دیا ۔کسان اور اس کی بیوی نے وہ رات نہایت بے چینی سے گزاری ۔اگلے دن علی الصبح وہ دونوں جاگ اٹھے اور بڑی بے چینی سے روشنی ہونے کا انتظار کرنے لگے۔جو نہی تھوڑی سی روشنی پھیلی وہ دونوں مرغی کے ڈربے کے پاس پہنچے اور اس ڈربے کا دروازہ کھولا۔ڈربے میں جھانکا تو دونوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کیونکہ وہاں ایک اور سونے کا انڈا موجود تھا ۔کسان نے جھپٹ کر وہ سونے کا انڈا اٹھا لیا۔ جبکہ بیوی اس مرغی کو اپنی بانہوں میں بھر کر اسے پیار کرنے لگی ۔
کسان نے اس سونے کے انڈے کو بیچنے کا ارادہ کیا اور اپنے علاقے کے سنار کے پاس ان سونے کے انڈوں کو لے کر پہنچ گیا ۔سنار ان خالص سونے کے انڈوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور کسان سے پوچھا کہ وہ اسے کہاں سے ملے ہیں؟؟کسان اس کے سوال پوچھنے پر ناراض ہو گیا اور اسے کہا کہ اس کے انڈے اسے واپس کر دے وہ کسی اور کو بیچ دے گا ۔سنار نے وہ انڈے ہاتھ سے جاتے دیکھے تو فورا کسان سے معافی مانگنے لگا اور کسان سے کہا کہ وہ سونے کے انڈوں کی بہترین قیمت دے گا اور اسے اتنی اچھی قیمت اس پورے علاقے میں اور کہیں سے نہیں مل سکے گی۔ کسان رضامند ہو گیا اور دونوں انڈے اسے دیکھ کر ڈھیروں پیسے اپنے ساتھ لے آیا ۔اب تو کسان کے وارے نیارے ہو گئے ۔ہر دن عید اور ہر رات شب برات کی مانند گزرنے لگی ۔کسان اب چھوٹے خوابوں کے بجائے بہت بڑے بڑے خواب دیکھنے لگا جس کے لیے اسے مزید دولت درکار تھی ۔اسے سونے کا انڈا حاصل کرنے کے لیے روزانہ انتظار کرنا نہایت مشکل لگنے لگا ۔وہ چاہتا تھا کہ کوئی ایسی تدبیر کرے کہ بہت سارا پیسہ اکٹھا مل جائے ۔ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ روزانہ ایک انڈا حاصل کرنے کے بجائے مرغی کا پیٹ چاک کیا جائے اور اس کے پیٹ میں موجود تمام تر انڈے ایک ساتھ نکال لیے جائیں تاکہ اسے پیسہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی قسم کا انتظار نہ کرنا پڑے اور وہ اپنی تمام تر خواہشات یکمشت پوری کر لے ۔
یہ خیال آتے ہی اس کے جسم میں بجلیاں دوڑنے لگیں اور وہ اپنی بیوی سے کوئی مشورہ کیے بغیر ہی مرغی کے ڈربے کی طرف چل پڑا ۔
مرغی ڈربے میں بالکل سامنے ہی موجود تھی ۔اس نے نہایت پیار سے مرغی کو ڈربے سے نکالا اور گھر کے خالی حصے میں پہنچ کر اس کی گردن پر چھری پھیر دی ۔ جو ہی مرغی نے تڑپنا بند کیا تو اس نے نہایت احتیاط سے اس کا پیٹ چاک کر دیا ۔لیکن مرغی کا خالی پیٹ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی روزانہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کے پیٹ میں ایک بھی سونے کا انڈا موجود نہ تھا ۔اتنی دیر میں اس کی بیوی بھی وہاں پہنچ گئی اور جب اس کے پوچھنے پر کسان نے اسے بتایا کہ اس نے مرغی کے ساتھ کیا کیا ہے تو وہ اپنا ماتھا پیٹنے لگی اور کسان سے کہا کہ اے بے وقوف انسان وہ مرغی ہمیں روزانہ سونے کا انڈا دیتی تھی لیکن تمہاری بے صبری اور لالچ نے ہمیں اس انڈے سے محروم کر دیا ۔جس کی سزا اب تمہارے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی بھگتنی پڑے گی ۔کسان اپنے کیے پر نہایت پچھتایا لیکن اب کچھ بھی نہ ہو سکتا تھا ۔کسی سیانے نے بالکل سچ کہا ہے کہ لالچ بری بلا ہے ۔
اخلاقی نتیجہ: لالچ بری بلا ہے ۔