گرمی کا موسم تھا۔ دھوپ شدت کی تھی۔ ہر طرف آسمان سے آگ برس رہی تھی۔ ایک بڑے جنگل کے کنارے ایک بڑ کا درخت شاخوں اور پتوں کی چھتری تانے کھڑا تھا ۔اس کی گھنی چھاؤں میں ایک بڑھئی لکڑی کے بڑے بڑے لٹھ چیرنے میں مصروف تھا۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول تھا کہ اس نے کبھی بڑ کی چھاؤں کے سوا کسی اور طرف خیال نہیں کیا تھا ۔بڑ کے درخت کے اوپر ایک بندر بھی رہا کرتا تھا جو نہایت شرارتی تھا۔ وہ بندر بڑے ہی دھیان سے بڑھئی کو لکڑی چیرتے دیکھا کرتا تھا۔ اسے بڑھئی کا یہ کام اتنا پسند آیا کہ اس کے دل میں یہ خواہش جاگی کہ کسی طرح بڑھئی وہاں سے چلا جائے اور وہ لکڑی چیرنے کے لیے لٹھ پر بیٹھ جائے۔ اور بڑھئی بن کر اس لکڑی کو چیرے۔
بڑھئی اکثر لکڑی کو چیرتے وقت لکڑی کی درز میں ایک پچر ڈال دیا کرتا تھا۔ بندر نے یہ سارا کھیل دیکھا اور موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بڑھئی کسی ضروری کام کی وجہ سے لٹھ سے اٹھا وہ آری اور پچر دونوں کو اپنی اپنی جگہ پر چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا بندر نے جب یہ دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ یہ بہترین موقع ہے۔ وہ درخت سے اترا اور لٹھ پرآبیٹھا ۔پھر اس نے ادھر ادھر جھانکا اور لکڑی کی درس میں موجود پچر کے ساتھ کھیلنے لگا۔ وہ زور لگاتا اور اسے ہلاتا رہتا ۔یہاں تک کہ ہلتے ہلتے آخر پچر درز سے نکل آئی اور درز بند ہو گئی۔ لیکن افسوس کہ اس درز کے بند ہوتے ہوئے بندر کا ہاتھ اس درز کے درمیان میں تھا ۔یوں درز بند ہوتے ہی بندر کا ہاتھ اس درس میں آ کر پھنس گیا۔ وہ بہتیرا چیخا چلایا ،تڑپا مگر وہ ایسا پھنسا کہ وہاں سے نکل نہ سکا۔ آخر وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
اسی دوران بڑھئی نے بندر کی چیخیں سنیں تو وہ اپنا کام چھوڑ کر بھاگتا ہوا وہاں پہنچا لیکن اس کے وہاں پہنچنے تک بندر بے حس و حرکت ہو چکا تھا ۔بڑھئی نے جلدی سے پچر اٹھائی اور اسے دوبارہ لکڑی کی درز میں ڈال دیا۔ درز تو کھل گئی لیکن بندر پھر بھی نہ ہلا ۔بڑھئی نے جب اسے ہلا جلا کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ تو مر چکا تھا۔ بڑھئی نے اسے درز کی قید سے نکال کر الگ پھینکا اور غصے سے کہنے لگا:
“جس کا کام اسی کو ساجے”
” بیوقوف تو بندر تھا لیکن بڑھئی بننے کی آرزو میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اخلاقی نتیجہ:ہمیں ہمیں دوسروں کی نقالی کرنے کے بجائے صرف وہی کام کرنے چاہییں جن میں ہم مہارت رکھتے ہوں۔ ورنہ ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔