ایک جنگل میں جنگلی کبوتروں کا ایک گروہ رہتا تھا۔ اس گروہ کے تمام کبوتر صبح ہوتے ہی دانے کی تلاش میں اکٹھے نکل جاتے ۔سارا دن جنگل میں گھومتے پھرتے دانہ چگتے اور شام کو ایک ساتھ واپس اپنے گھونسلوں کی طرف آ جاتے ۔یہ ان کا معمول تھا اور وہ اپنی زندگی سے بہت خوش تھے ۔
ایک دن ایک شکاری شکار کی تلاش میں نکلا ۔اتفاقا وہ اس جنگل میں آپہنچا جہاں وہ جنگلی کبوتر موجود تھے ۔وہ جنگلی کبوتروں کے گروہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔اس نے ان کبوتروں کو پکڑنے کے لیے درختوں کے نیچے بہت زیادہ دانہ بکھیرا اور جال لگا دیا۔
کبوتروں نے اتنی زیادہ مقدار میں ایک ہی جگہ دانہ دیکھا تو وہ دانہ چگنے کے لیے باری باری نیچے اترنے لگے۔ انہیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ یہ دانہ شکاری نے انہیں گھیرنے کے لیے بکھیرا ہے اور اس کے نیچے جال لگایا ہوا ہے۔ جب وہ کبوتر دانہ چگنے میں مصروف ہوئے تو شکاری نے جال کی رسی کھینچی اور سب کبوتر اس جال میں پھنس گئے۔ وہ سب پریشان تھے اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اس جال سے رہائی حاصل کریں۔
کبوتروں کے اس گروہ میں ایک بوڑھا کبوتر بھی تھا۔ سب کبوتر اس کی عقلمندی کی وجہ سے اس کی قدر کیا کرتے تھے۔ اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے سب کبوتروں کو مخاطب کر کے کہا
“ہم اپنی بے وقوفی کی وجہ سے بری طرح جال میں پھنس چکے ہیں ۔اب ہمارے پاس بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم سب مل کر اکٹھے اڑنا شروع کر دیں ۔اگر اس طرح ہم جال سمیت اڑنے میں کامیاب ہو گئے تو شکاری سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ “
کبوتروں نے بوڑھے کبوتر کی ہدایت پر عمل کیا اور سب مل کر اکٹھے زور لگا کر اڑنے لگے۔ ان کے اکٹھے اڑنے کی وجہ سے جال ہوا میں بلند ہو گیا۔ شکاری نے جب اپنے جال کو کبوتروں سمیت ہوا میں اڑتا پایا تو وہ پریشان ہو گیا۔اس نے اپنے جال اور کبوتروں کے پیچھے بھاگنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا اور آخر کار تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
کبوتر کافی دور جا کر جنگل کے کنارے پر رک گئے ۔ وہاں ان کا ایک دوست چوہا رہتا تھا ۔چوہے نے اپنے تیز دانتوں کی مدد سے ان کا جال کتر دیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے آزاد ہو گئے ۔اور دوبارہ ہنسی خوشی جنگل میں رہنے لگے ۔
اخلاقی نتیجہ/ سبق:
اتفاق میں برکت ہے ۔
ہمیں ہمت کر کے ہر مشکل سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہم مل کر بڑی سے بڑی مشکل کا سامنا کر سکتے ہیں اور اس سے نجات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔