ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک لومڑی ریتی تھی۔ جنگل بہت زرخیز تھا۔ اس لیے کھانے پینے کو کثرت سے مل جاتا تھا لیکن ایک سال بارش نہ ہونے کی وجہ سے جنگل سوکھ گیا ۔تمام جانور بھوکوں مرنے لگے۔ جنگل میں رہتے ہوئے زندگی سے رشتہ استوار رکھنا مشکل ہو گیا اور جنگل میں رہنے والے جانور خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔
ایک دن لومڑی کو بھی بھوک نے ستایا تو وہ خوراک کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ چلتے چلتے وہ جنگل سے باہر آگئی اور ایک باغ میں پہنچ گئی۔ وہاں انگور کی بیلیں تھیں؛ جن پر انگوروں کے گچھے لٹک رہے تھے۔ انگوروں کے گچھے دیکھ کر لومڑی کی بھوک چمک اٹھی اور اس کے منہ میں پانی بھر آیا لیکن یہ دیکھ کر اسے بہت مایوسی ہوئی کہ بیلوں کی اونچائی بہت زیادہ تھی۔ وہ انگوروں کے گچھوں کو حاصل کرنے کے لیے اچھلنے لگی۔ کئی بار اچھل کود کے باوجود لومڑی کی انگوروں تک رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ مسلسل اچھل کود سے وہ تھک چکی تھی لیکن انگوروں کے اس گچھے تک پہنچنا بھی چاہتی تھی۔ بہت دیر تک لگاتار کوشش کے بعد اسے یہ اندازہ ہو گیا کہ اس کے لیے انگوروں کے گچھے تک پہنچ کر اسے حاصل کرنا ناممکن تھا۔ آخر کار لومڑی خود کو تسلی دینے کے لیے یہ کہتی ہوئی وہاں سے چل دی کہ یہ انگور کھٹے ہیں میں انہیں نہیں کھانا چاہتی ۔
اخلاقی سبق / نتیجہ:
جس چیز کا حصول ممکن نہ ہو وہ چیز فضول دکھائی دیتی ہے۔
انگور کھٹے ہیں