شعر نمبر 01
اندھے نکالتے ہیں چہرے سے میرے نقص
بہروں کو شکایت ہے غلط بولتا ہوں میں
شعر نمبر 02
اب خساروں کو میں انگلی پہ گنوں؟ ناممکن
جب تجھے چھوڑ دیا ہے تو سمجھ چھوڑ دیا
شعر نمبر 03
اب آر ہو یا پار ہو اِس بار چھین لو
ان غاصبوں سے جُبہ و دستار چھین لو
وقت آ گیا ہے خوف کی زنجیر توڑ کر
نکلو نکل کے ظلم کی سرکار چھین لو
شعر نمبر 04
اک تناسب سے ہمیں اپنی جلالت سے ڈرا
خوف بڑھ جائے تو پھر خوف نہیں رہتا ہے
شعر نمبر 05
اس کا نعم البدل کوئی بھی ہو نہیں سکتا
ہم پہ واجب ہے کہ ہم اس کا انتظار کریں
شعر نمبر 06
اسی کا شہر، وہی مدعی،وہی منصف
ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا