کرکٹ اور مشاعرہ

کرکٹ اور مشاعرہ

دلاور فگار

شعر #1:

مشاعرہ کا بھی تفریح ایم ہوتا ہے

مشاعرہ میں بھی کرکٹ کا گیم ہوتا ہے

تشریح :

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے ‘شہنشاہ ظرافت’ اور ‘اکبر ثانی’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شاندار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انہیں ‘پیروڈی کا بادشاہ’ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کیکمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔

دلاور فگار کی تحریر کردہ نظم “کرکٹ اور مشاعرہ” ایک مزاحیہ نظم ہے۔ جس میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا مزاحیہ انداز میں موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو بالکل ایک جیسا قرار دیتے ہیں ۔ نظم کے پہلے شعر میں شاعر لکھتے ہیں کہ میدان چاہے کرکٹ کا ہو یا پھرمشاعرے کے لیے جمائی جانے والی محفل؛ ان دونوں کے لیے جمائی جانے والی محفل کا مقصد درحقیقت تفریح حاصل کرنا ہی ہوتا ہے اس لیے

 اگر غور کیا جائے تو مشاعرہ بھی کرکٹ کا کھیل ہی دکھائی دیتا ہے۔دراصل شاعر محفل مشاعرہ اور کرکٹ کے کھیل کو ایک جیسا قرار دے کر موضوع میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیتے

 ہیں۔

شعر #2:

وہاں جو لوگ کھلاڑی ہیں وہ یہاں شاعر

یہاں جو صدر نشیں ہیں وہاں ہیں امپائر

 تشریح :

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے ‘شہنشاہ ظرافت’ اور ‘اکبر ثانی’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شاندار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انہیں ‘پیروڈی کا بادشاہ’ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کیکمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔

دلاور فگار کی تحریر کردہ نظم “کرکٹ اور مشاعرہ” ایک مزاحیہ نظم ہے۔ جس میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا مزاحیہ انداز میں موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو بالکل ایک جیسا قرار دیتے ہیں ۔نظم کے اس شعر میں شاعر محفل مشاعرہ میں موجود شاعروں اور کرکٹ کے میدان میں موجود کھلاڑیوں کا  شگفتہ اور ہلکے پھلکے انداز میں موازنہ کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ جیسے کرکٹ کے میدان میں کھلاڑی موجود ہوتے ہیں ویسےہی محفل مشاعرہ میں شاعر موجود ہوتے ہیں اور  یہی نہیں  بلکہ دونوں میدانوں میں قوانین کے عملی نفاذ کے لیے صدر نشیں اور امپائر موجود ہوتے ہیں ۔شاعر کے بقول امپائر اور محفل مشاعرہ کےصدرنشیں  صاحبان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔یعنی  مشاعرے کا صدر نشین بالکل کرکٹ کے میدان میں موجود امپائر کی طرح ہوتا ہے کیونکہ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی کا کام  یہی ہوتا ہے کہ وہ میدان میں موجود افراد  کے نظم و ضبط کو یقینی بنائیں اور میدان میں موجود سرگرمیوں کو بلا تعطل جاری و ساری رکھیں۔

            شعر #3:

وہاں ریاض مسلسل سے کام چلتا ہے

          یہاں گلے کے سہارے کلام چلتا ہے

تشریح

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے ‘شہنشاہ ظرافت’ اور ‘اکبر ثانی’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شاندار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انہیں ‘پیروڈی کا بادشاہ’ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کیکمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔

دلاور فگار کی تحریر کردہ نظم “کرکٹ اور مشاعرہ” ایک مزاحیہ نظم ہے۔ جس میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا مزاحیہ انداز میں موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو بالکل ایک جیسا قرار دیتے ہیں۔زیر تشریح شعر میں وہ کہتے ہیں کہ  دنیا کا کوئی ایسا شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے محنت نہ کرنی پڑتی ہو۔اپنی بات کی بہتر طور پر وضاحت کرنے کے لیے وہ کرکٹ اور شاعری کی مثال دیتے

 ہیں۔ شاعر کے بقول جیسے کرکٹ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مسلسل محنت  اور لگن کے ساتھ مشق کرنی پڑتی ہے؛ ویسے ہی ایک اچھے شاعر  کے لیے مشاعرے میں اس کے گلے کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ مشاعرے میں شاعر کو سامعین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے شعر خود پڑھ کر سنانے پڑتے ہیں۔ اور ان اشعار کو سنانے کے لیے گلے کا صاف ہونا اوراشعار پڑھنے کا ایک خوبصورت اور منفرد انداز ہونا بھی لازمی ہے۔ لہذا شاعر ہو یا کرکٹر دونوں ہی اگر اپنے اپنے شعبے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دونوں کے لیے ہی مسلسل محنت اور کوشش کرتے رہنا لازمی ہے۔

کوشش بھی کر، امید بھی رکھ راستہ بھی چن 

پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر 

شعر #4 :

وہاں بھی کھیل میں نو بال ہو تو فاؤل ہے

یہاں بھی شعر میں اہمال ہو تو فاؤل ہے

تشریح

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے ‘شہنشاہ ظرافت’ اور ‘اکبر ثانی’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شاندار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انہیں ‘پیروڈی کا بادشاہ’ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کیکمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔

دلاور فگار کی تحریر کردہ نظم “کرکٹ اور مشاعرہ” ایک مزاحیہ نظم ہے۔ جس میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا مزاحیہ انداز میں موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو بالکل ایک جیسا قرار دیتے ہیں ۔ زیر تشریح شعر میں وہ کہتے ہیںکہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مسلسل اور انتھک محنت اور پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی لازمی ہے۔لہٰذااگر کرکٹ کے میدان میں کھیل کے دوران کوئی باؤلر نو بال کرواتا ہے تو اسے فاؤل مانا جاتا ہے۔ اور اس کی سزا باؤلر اور اس کی ٹیم کو بھگتنی پڑتی ہے۔بالکل اسی طرح اگر کوئی شاعر دوران مشاعرہ اچھے اور عمدہ اشعار نہ کہے تو سامعین اور باقی شعرا کی جانب سے اسے بھی فاؤل ہی سمجھا جاتا ہے۔لہذا شاعر اور باؤلر دونوں ہی کو فاؤل کرنے پر ناقدین اور شائقین کی جانب سے تنقید اور ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

شعر #5  :

وہاں ہے ایک ہی کپتان پوری ٹیم کی جان

یہاں پر ایک پلیئر بہ جائے خود کپتان

تشریح

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے ‘شہنشاہ ظرافت’ اور ‘اکبر ثانی’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شاندار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انہیں ‘پیروڈی کا بادشاہ’ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کیکمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔

دلاور فگار کی تحریر کردہ نظم “کرکٹ اور مشاعرہ” ایک مزاحیہ نظم ہے۔ جس میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا مزاحیہ انداز میں موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو بالکل ایک جیسا قرار دیتے ہیں ۔ زیر تشریح شعر میں شاعر فرماتے ہیں کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں تمام کھلاڑی ایک ٹیم کی صورت میں کھیلتے ہیں ہر کھلاڑی کی کچھ مخصوص ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور تمام تر کھلاڑی ٹیم کی

جیتیا ہار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ہر ایک کھلاڑی نے کچھ مخصوص مسائل کا سامنا کر کے ان کا حل نکالنا ہوتا ہے لیکن وہ ان مسائل کا حل نکالنے کے لیے تنہا نہیں ہوتا بلکہ ان کی رہنمائی کےلیے ایک

کھلاڑی کو ان کا کپتان بھی مقرر کیا جاتا ہے کپتان کو پوری ٹیم کی جان سمجھا جاتا ہے کیونکہ کپتان ہی پر پوری ٹیم کو چلانے کی ذمہ داری ہوتی ہے کپتان کے لیےیہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ تمام کھلاڑیوں کے مسائل سے آگاہ ہو اور ان مسائل کا حل فراہم کرنے میں بھی معاونت کرے۔یوں دیکھا جائے تو کپتان کا کسی بھی ٹیم کی جیتیا ہار میں نہایت اہم کردار ہوتا ہے؛ جبکہ دوسری جانب مشاعرے میں کسی کپتان کا تصور نہیں

 پایا جاتا۔ہر پلیئریعنی شاعر کو اپنے مسائل کا حل خود ہی تلاش کرنا پڑتا ہے ۔یوں اگر دیکھا جائے تو مشاعرے میں شامل ہرشخص اپنا کپتان خود ہی ہوتا ہے لہذا وہ اپنی تمام تر کامیابییا ناکامی کا ذمہ دار بھی خود ہی

 ہوتا ہے۔ ویسے تو اس نظم میں شاعر نے کرکٹ اور مشاعرے کا موازنہ کر کے دونوں کو بالکل یکساں قرار دیا ہے لیکن زیر تشریح شعر میں وہ کرکٹ اور مشاعرے میں موجود فرق کی نشاندہی کرتا ہے ۔یعنی

 اس کے خیال میں کرکٹ مشاعرے سے اس طرح مختلف ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں کھلاڑی ایک ٹیم کی صورت میں کھیلتے ہیں اور ان کا ایک کپتان بھی ہوتا ہے ۔یوں وہ کپتان کی رہنمائی میںآگے بڑھنے کے مواقع تلاش کرتے ہیں؛ جبکہ مشاعرے میں کسی کپتان کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ لہذا ہر شخص کو اپنے مسائل کا حل خود ہی تلاش کرنا پڑتا ہے۔

شعر #6:

وہاں جو لوگ اناڑی ہیں وقت کاٹتے ہیں

یہاں پہ کچھ متشاعر دماغ چاٹتے ہیں

تشریح

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے ‘شہنشاہ ظرافت’ اور ‘اکبر ثانی’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شاندار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انہیں ‘پیروڈی کا بادشاہ’ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کیکمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔

دلاور فگار کی تحریر کردہ نظم “کرکٹ اور مشاعرہ” ایک مزاحیہ نظم ہے۔ جس میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا مزاحیہ انداز میں موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو بالکل ایک جیسا قرار دیتے ہیں ۔ زیر تشریح شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ  کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو ایک ٹیم کی صورت میں کھیلا جاتا ہےہر ٹیم میں 11 کھلاڑی موجود ہوتے ہیں جبکہ ان کا ایک کپتان بھی ہوتا ہے جو کہ ان کے تمام مسائل کے حل نکالنے اور فیصلہ سازی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لیکن ٹیم کی کامیابیمیں تمام تر کردار صرف کپتان ہی کا نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کھلاڑی کی اچھییا بری کارکردگی ٹیم کی کامیابییا ناکامی کا سبب بنتی ہے۔ اب

ہونا تو یہ چاہیے کہ کرکٹ کی ٹیم میں موجود ہر ایک کھلاڑییہ سوچ کر منتخب کیا جائے کہ وہ کرکٹ کے میدان میں کچھ بہتر کر کے دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ہر مرتبہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں اس چیز کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔لہذا کرکٹ کے میدان میں ہمیں کچھ ایسے کھلاڑی بھی کھیلتے دکھائی دیتے ہیں جنہیں کرکٹ کھیلنی نہیںآتی۔ شاعرایسے کھلاڑیوں کو کھلاڑی نہیں بلکہ اناڑی قرار دیتا ہے اور اس کے بقول ایسے اناڑی وہاں کھیلنے نہیں بلکہ صرف وقت گزارنے آتے ہیں۔ دوسری طرف وہ مشاعرے کی بات کرتا ہے  اور کہتا ہے کہ محفل مشاعرہ میں بھی کچھ ایسے شاعر موجود ہوتے ہیں؛جنہیں شاعری کی کچھ سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ایسے لوگ مشاعرے میں اپنا کلام سنا کر لوگوں سے داد سمیٹنے نہیںآئے ہوتے بلکہ وہ اپنے الفاظ کے الٹ پھیر کے ذریعے وہاں موجود لوگوں کے دماغ چاٹنے آتے ہیں کیونکہ وہ شاعری سے

 واقف ہی نہیں ہوتے۔

شعر #7:

میرے خیال کو اہل نظر کریں گے کیچ

مشاعرہ بھی ہے ایک طرح کا کرکٹ میچ

تشریح

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے ‘شہنشاہ ظرافت’ اور ‘اکبر ثانی’ کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شاندار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انہیں ‘پیروڈی کا بادشاہ’ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کیکمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔

دلاور فگار کی تحریر کردہ نظم “کرکٹ اور مشاعرہ” ایک مزاحیہ نظم ہے۔ جس میں شاعر کرکٹ اور مشاعرے کا مزاحیہ انداز میں موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو بالکل ایک جیسا قرار دیتے ہیں ۔ زیر تشریح شعر جو کہ اس مزاحیہ نظم کا آخری شعر ہے میں شاعر کہتے ہیں کہ انہوں نے کرکٹ میچ اور مشاعرے کا موازنہ کرنے کے بعد جو خوبصورت نظم تحریر کی ہے۔ اس خیال کی انفرادیت کو صرف اہل نظر ہی سمجھ سکتے ہیں وہ لوگ جو معاشرے کے نبض شناس ہیں وہ ضرور  دلاور فگار کی اس انوکھی نظم کو پڑھنے کے بعد اس بات سے اتفاق کریں گے کہ مشاعرہ اور کرکٹ میچ بہت سی خصوصیات کی بنا

پر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *