غزل ناصر کاظمی

غزل

ناصر کاظمی 

شعر #1:

غم ہے یا خوشی ہے تو 

میری زندگی ہے تو 

تشریح:

زیر تشریح شعر میں شاعر راہ عشق کی کٹھنائیاں بیان کرتے ہوئے  کہتا ہے کہ عشق کے راستے پر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔کیونکہ اس راستے پر چلتے ہوئے قدم قدم پر انسان کو مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس راستے میں پھول بہت کم اور کانٹے بہت زیادہ ہیں ۔ 

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے 

اک اگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں راہ عشق کا مسافر ہوں اور اس کی تمام تر دشواریوں سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ حصول محبوب کوئی آسان چیز نہیں ہے ۔اور راہ عشق کی تمام تر دشواریاں پار کر لینے کے باوجود بھی اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ میں اپنے محبوب کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا ۔ اگرچہ میں ان تمام حقیقتوں سے آشنا ہوں لیکن میرے احباب اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید میں راہ عشق میں درپیش مشکلات اور اس کے انجام سے ناواقف ہوں ۔لہذا وہ وقتا فوقتا مجھے ان مشکلات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب سے میں اپنے محبوب کے عشق میں مبتلا ہوا ہوں؛ میری زندگی سے غم اور خوشی کا ہر احساس مٹ گیا ہے ۔ مجھے اس چیز سے بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ محبت مجھے خوشی دے رہی ہے یا میرے دکھ میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ میرے زندہ رہنے کا سبب میرے محبوب کی ذات ہے ۔ اس کی ذات سے مجھے خوشی ملتی ہے یا غم یہ بات میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اہمیت ہے تو صرف اس بات کی کہ میرے زندہ رہنے کا سبب میرا محبوب  ہے  ۔لہذا میں اپنے محبوب کی طرف سے ملنے والے تمام رنج و الم کو خوشی سے برداشت کر لوں گا کیونکہ میرے لیے یہ قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

خوشی اپنی تھی بانٹ دی ہم نے 

غم تیرا تھا سنبھال رکھا ہے 

اس شعر کا حقیقی پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اس سچائی سے بخوبی واقف ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والی تمام تر خوشیوں ، راحت اور مشکلات کا مرکز و محور اللہ تعالی کی ذات ہے۔اسے جتنی بھی آسانیاں ملی ہیں وہ اللہ تعالی کی بدولت ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والی تمام تر تکالیف اور پریشانیاں بھی اللہ تعالی کی طرف سے بھیجی گئی ہیں ۔

                                    وہ جو چاہے تو کیا نہیں ممکن 

وہ نہ چاہے تو کیا کرے کوئی  

پس شاعر اللہ تعالی کی طرف سے تحریر کردہ اپنی تقدیر پر راضی بہ رضا ہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ اس کی زندگی اللہ تعالی کی عطا ہے ۔ 

شعر #2:

آفتوں کے دور میں 

چین کی گھڑی ہے تو 

تشریح:

زیر تشریح شعر میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی زندگی کو اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرے لیکن انسان اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اپنی آمد کا مقصد بھول جاتا ہے اور زندگی کی اس دوڑ میں شامل ہو کر اپنے مالک حقیقی کے لیے کوئی وقت نہیں نکال پاتا ۔ لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ یہ دنیا مشکلات ،مصائب اور پریشانیوں کا مجموعہ ہے ۔کوئی نہ کوئی الجھن یا پریشانی ہر وقت انسان کو گھیرے رکھتی ہے اور یہ پریشانیاں کسی بھی لمحے انسان کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم نہیں کرتیں ۔ شاعر کے مطابق جب وہ زندگی کی الجھنوں میں الجھ کر نہایت پریشانی کا شکار ہوتا ہے اور لاکھ کوشش کرنے کے باوجود بھی سکون حاصل نہیں کر پاتا تو وہ اپنے رب سے رابطہ کرتا ہے ۔اور اپنے رب سے اس کا یہ رابطہ اسے ایک قلبی،ذہنی ، روحانی اور جسمانی سکون مہیا کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

 ترجمہ: “بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور تکلیف دور کر دیتا ہے ۔” 

 بے شک وہ اللہ تعالی کی ذات ہی ہے جو اس آفتوں کے دور میں انسان کو چین اور سکون کے لمحات فراہم کرتی ہے۔ 

زیر تشریح شعر کا مجازی پہلو بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ شاعر نے اپنے محبوب کے بچھڑ جانے کے بعد بھی اس کی یاد کو فراموش نہیں کیا ۔وہ کہتا ہے کہ اگر چہ میں اپنے محبوب سے بچھڑ چکا ہوں اور اپنی زندگی میں موجود مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہر لمحہ بے چین اور پریشان رہتا ہوں ۔آئے دن کوئی نہ کوئی نئی مشکل یا پریشانی میری زندگی کا احاطہ کیا رکھتی ہے ۔لیکن میری اس پریشان کن زندگی میں چین و سکون کے لمحات وہ ہوتے ہیں  جب میں مصائب زمانہ سے دامن چھڑا کر تیری یاد کی بستی آباد کر لیتا ہوں  ۔

عشق نے سیکھ لی ہے وقت کی تقسیم کہ اب 

وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد

شاعر کے کہنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی زندگی لا تعداد بے چینیوں، پریشانیوں اور ہنگامہ خیزیوں کا مجموعہ ہے ۔ہر لمحے کوئی نہ کوئی نئی آفت اس کی زندگی پر حملہ آور رہتی ہے ۔لیکن اس کی آفت زدہ زندگی اس وقت چین کی گھڑی میں بدل جاتی ہے جب وہ اپنے محبوب سے ملاقات کرتا ہے؛ اس کے رخ روشن کا دیدار کرتا ہے یا اس سے ہم کلام ہوتا ہے ۔ یعنی شاعر کی پرخار زندگی میں اس کے محبوب کی حیثیت ایک گل رعنا کی سی ہے ؛جو اس کو وقتی طور پر ہی صحیح لیکن تمام تر پریشانیوں سے آزاد کر دیتی ہے۔

 شعر #3:

میری رات کا چراغ 

میری نیند بھی ہے تو 

تشریح:

تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ انسان کی زندگی کبھی ایک سی حالت میں نہیں رہتی ۔خوشیاں اور غم؛ اندھیرے اور اجالے انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ دنیا میں بہت سے بدقسمت انسان ایسے ہیں کہ جب ان کی زندگی مصائب کے گھپ اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے تو ان کے ارد گرد کوئی ایسا فرد موجود نہیں ہوتا جو انہیں جذباتی طور پر سہارا دے ۔اور مایوسیوں کی تاریکیوں کو دور کر کے ہر طرف امید کا اجالا بکھیر دے ۔شاعر اس لحاظ سے اپنے آپ کو نہایت خوش قسمت قرار دیتا ہے کہ اس کی زندگی میں اس کا محبوب شامل ہے جو اسے کبھی بھی مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبنے نہیں دیتا ۔بلکہ جب جب وہ حوادث زمانہ کے باعث پریشانی کا شکار ہوتا ہے اور اپنی تمام تر امیدیں کھونے لگتا ہے تو اس کا محبوب امید کی کرن کی صورت میں اس کی زندگی میں نمودار ہوتا ہے اوراس کی آمد کے بعد  دھیرے دھیرے اس کی زندگی میں موجود اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہونے لگتے ہیں اور وہ اپنی بے کلی اور بے چینی سے نجات پا کر راحت و سکون محسوس کرنے لگتا ہے ۔ شاعر کے بقول اس کی زندگی میں موجود تمام تر رنگ و روشنی اور راحت و آرام  اس کے محبوب کے سبب ہے ۔ 

نام ہونٹوں پہ تیرا آئے تو راحت سی ملے 

تو تسلی ہے، دلاسہ ہے ،دعا ہے، کیا ہے 

تشریح طلب شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے مخاطب ہے وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب! تو نے مجھے اس دنیا میں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑا ۔وہ میں ہی ہوں جو اس دنیا کی نمود و نمائش میں کھو کر تجھ سے رابطہ منقطع کر بیٹھتا ہوں ۔ لیکن جب جب اس دنیا کے فریب مجھ پر آشکار ہوتے ہیں اور میں ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈوبنے لگتا ہوں ۔  تو اس وقت تو ہی امید کی کرن بن کر میری زندگی میں نمودار ہوتا ہے ۔ اور مجھے ان تمام تر مشکلات پریشانیوں اور مایوسیوں سے باہر نکلنے کا راستہ دکھاتا ہے ۔ بے شک مجھے بے چینی کے سمندر سے نکال کر آرام و سکون بخشنے والا تو ہی ہے۔

تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں 

تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا

 شعر #4:

میں خزاں کی شام ہوں 

رت بہار کی ہے تو 

زیر تشریح شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اس کی زندگی میں موجود تمام تر خوبصورتیوں اور رعنائیوں کا سبب اس کا محبوب ہے ۔ شاعر اپنے محبوب کی محبت میں اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ اپنے محبوب کے بغیر اسے دنیا کی ہر چیز اجاڑ اور بیابان محسوس ہوتیہے ۔ اپنے محبوب کے بغیر وہ خود کو خالی اور ویران محسوس کرتا ہے ۔ جس طرح ایک خوبصورت اور سرسبز و شاداب باغ پر جب خزاں چھا جاتی ہے تو وہ باغ اجڑ کر رہ جاتا ہے ۔اور ہر طرف ویرانی راج کرنے لگتی ہے ۔تو ایسی صورت حال میں صرف موسم بہار کی آمد ہی ہے جو اس خزاں رسیدہ گلشن کو دوبارہ انواع و اقسام کے پھولوں سے بھر سکتی ہے ۔  بالکل اسی طرح شاعر کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی پر خزاں کی شام چھا چکی ہے ؛ خوشیوں نے اپنا ناطہ اس سے توڑ لیا ہے؛ جینے کی کوئی امید باقی نہیں رہی ۔  اس کے جینے کی واحد امید اس کا محبوب ہی ہے۔ جو اس کی خزاں رسیدہ زندگی میں ایک مرتبہ پھرسے امید کے پھول کھلا سکتا ہے ۔

یہ دلبری، یہ ناز ،یہ انداز، یہ جمال

انساں کرے اگر نہ تیری چاہ کیا کرے 

شاعر کی دلی خواہش اور آرزو یہی ہے کہ اس کا محبوب ہمیشہ اس کے روبرو رہے ۔ بقول شاعر:   

                                                وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں

طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا

تشریح طلب شعر کا ایک حقیقی پہلو بھی ہو سکتا ہے ۔یعنی شاعر اللہ تعالی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے میرے رب! تو نے ہمیں اس دنیا میں بھیجنے کے بعد ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی بھی فراہم کی ۔ لیکن انسان اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر تجھے اور تیری رہنمائی کو فراموش کر بیٹھتا ہے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں موجود بہاروں کا خود دشمن بن کر انہیں خزاؤں میں تبدیل کر چکا ہے ۔ اس کی زندگی کا سکون ختم ہو جاتا ہے ۔ اسے کسی پل چین نہیں آتا ۔ ہر طرف ایک ویرانی چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ مشکلات سے باہرنکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔ ایسے میں تمام تر امیدوں کی ڈور صرف اللہ تعالی سے بندھی ہوتی ہے ۔جو انسانی زندگی کی تمام خزاؤں کو دوبارہ سے بہار میں بدلنے کی تمام تر طاقت و قدرت رکھتا ہے ۔

            تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں 

تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا

شعر #5: 

دوستوں کے درمیان 

وجہ دوستی ہے تو 

تشریح:

زیر تشریح شعر میں شاعر اللہ تعالی کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے میرے رب !تو ہی ہے جو انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت پیدا کرنے والا ہے۔اگر تیری رضا شامل حال نہ ہو تو اس روئے زمین پر رہنے والا کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کے لیے دل میں کوئی مثبت جذبہ محسوس نہیں کر سکتا ۔اگر غور کیا جائے تو یہ اللہ تعالی کا انسانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے باہم ہمدردی، رحم دلی، محبت ، رواداری اور ناگوار باتوں کو درگزر کرنے جیسے جذبات پیدا کیے ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے :

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں باہم الفت پیدا کردی، اگر تو وہ سب کچھ خرچ کر ڈالتا جو روئے زمین میں ہے جب بھی ان کے دلوں کو باہمی الفت سے نہ جوڑ سکتا۔ لیکن یہ اللہ ہے جس نے ان میں باہمی الفت پیدا کردی۔

شاعر کے کہنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت سے انسان ایسے ہوتے  ہیں ۔ جو اس معاشرے کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔ ان انسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ انسانوں سے محبت کرتے ہیں ۔اور جب کسی دوسرے انسان کے کردار میں کوئی کمی ، عیب یا خامی دیکھتے ہیں تو دوسرے لوگوں کے سامنے اس کی تشہیر کرنے کے بجائے ذاتی طور پر اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ خود بھی انسانیت سے محبت کرتے ہیں ؛ اس کا درد رکھتے ہیں ۔ اور افراد معاشرہ میں بھی بھائی چارہ، ہمدردی اور مساوات جیسے جذبات پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایسے ہی لوگ معاشرے کا حسن ہوتے ہیں اور بجا طور پر کسی بھی معاشرے کا اثاثہ کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں ۔  

لوگ جو صاحب کردار ہوا کرتے تھے 

بس وہی قابل دستار ہوا کرتے تھے  

اسی مضمون کو شاعر نے ایک اور جگہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز 

مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم

 شعر #6: 

میری ساری عمر میں 

ایک ہی کمی ہے تو

تشریح:

زیر تشریح شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں نے بحیثیت انسان ایک نہایت کامیاب زندگی گزاری ہے ۔ میں نے جس کام کو شروع کیا اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔جو حاصل کرنے کا سوچا اسے حاصل کر کے دم لیا ۔ زمانے کے نشیب و فراز سے گزرا لیکن دنیا کی کوئی طاقت مجھے آگے بڑھنے سے روک نہیں پائی ۔ میں نے اس دنیا میں اپنے بل بوتے پر ایک نام اور ایک مقام حاصل کیا لیکن مجھے نہایت افسوس

کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ بظاہر کامیاب دکھائی دینے کے باوجود بھی میں کامیاب نہیں ہوں ۔ بظاہر مکمل دکھائی دینے کے باوجود بھی میں مکمل نہیں ہوں ۔اور میرے نا مکمل ہونے کی وجہ میرا محبوب ہے ۔ جس کی محبت میں مبتلا ہونے کے بعد میں نے اسے حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ اس کے تمام تر ناز و نخرے اٹھائے ، زبان سے نکلنے والے ہر ایک لفظ کو حکم کا درجہ دیا اور ہرہرحکم پر سر تسلیم خم کیا ،خود کو سرتاپا اس کی پسند کے سانچے میں ڈھال دیا ،صرف انہی افراد سے میل جول برقرار رکھا جو اسے پسند تھے اور اس کو ناپسند تمام تر لوگوں سے رابطے توڑ دیے ۔ اپنی ذات کی مکمل طور پر نفی کر کے خود کو اپنے محبوب کا عکس بنا لیا ۔بقول شاعر

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں 

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں 

لیکن میری تمام تر ریاضتیں بیکار گئیں اور میرا محبوب مجھ سے جدا ہو گیا ۔اور اس کے موجود نہ ہونے سے میری زندگی میں وہ خلا پیدا ہو گیا ہے جسے دنیا کی کوئی آسائش پر نہیں کر سکتی۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم 

کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی 

اسی مضمون کو شاعر ایک اور جگہ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے  :

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم 

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے

شعر #7: 

میں تو وہ نہیں رہا 

ہاں مگر وہی ہے تو

ناصر کاظمی کا زیر تشریح شعر سہل ممتنع کا شاہکار ہے۔جس کی حقیقی اور مجازی دونوں پہلوؤں سے تشریح کی جا سکتی ہے ۔اگر حقیقی نکتہ نظر سے شعر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاعر حضرت انسان کی اس دنیا میں آمد اور اللہ تعالی سے کیے گئے اس کی اطاعت و بندگی کے وعدوں پر روشنی ڈالتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے ۔انسان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وہ ایک مقررہ وقت کے لیے اس دنیا میں آیا ہے اور یہ وقت گزارنے کے بعد اسے دوبارہ اللہ تعالی کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور اس دنیا میں کیے گئے اپنے تمام تر اعمال کا حساب دینا ہے ۔  اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اس دنیا میں آمد کے بعد انسان اپنے حقیقی مقصد کو یاد رکھے (جو کہ اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری ہے ) اور اپنی زندگی کا ہر ایک لمحہ احکامات الہی کے مطابق بسر کرے ۔لیکن عام طور پر ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے ۔یعنی انسان اس دنیا میں اپنی آمد کے بعد اپنی تخلیق کا مقصد بھول جاتا ہے اور اس دنیا کی روشنیوں میں کھو کر اپنے عظیم الشان رب کو فراموش کر دیتا ہے ۔ اور اس کا اپنے رب

کے ساتھ تعلق انتہائی کمزور پڑ جاتا ہے ۔اپنی اسی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ اے میرے رب !میں جانتا ہوں کہ میں تیرا گنہگار بندہ ہوں ۔اور اس دنیا کے میلے میں کھو کر اپنی حقیقت کو فراموش کر بیٹھا ہوں لیکن تو رحمٰن و رحیم ہے ۔ میرے تمام تر گناہوں اور کوتاہیوں کے باوجود تیری عطا میں کوئی فرق نہیں آیا ۔

بندہ تو گنہگار ہے رحمان ہے مولا 

بندے پہ کرم کرنا تیری شان ہے مولا  

اردو ادب کی غزلیہ شاعری کی روایت ہے کہ شاعر تو ہمیشہ اپنے محبوب کا مشتاق ہوتا ہے اور بخوشی اس کے تمام ناز و نخرے اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے لیکن محبوب شاعر کی محبت کا جواب محبت سے دینے کے لیے رضامند نہیں ہوتا ۔ بقول غالب 

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار 

یا الہی یہ ماجرہ کیا ہے

 دیار عشق میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ محبوب عاشق کے جذبہ صادق کو دیکھ کر اس کی محبت کا جواب محبت سے دینے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ اور یوں شاعر اور اس کا محبوب دونوں مل کر مستقبل کے خواب بنتے ہیں ۔دنیا کی تمام رسموں اور رواجوں سے بغاوت کرتے ہوئے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں ۔اور ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا عہد کرتے ہیں ۔لیکن محبت کا یہ حسین زمانہ پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے اور حوادث زمانہ خطرناک شکاری بن کر ان کی معصوم محبت پر حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔شاعر اور اس کا محبوب دونوں ہی ان شکاریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاعر کی اس کے محبوب کے ساتھ  محبت تو برقرار رہتی ہے لیکن شاعر کا محبوب اس سے بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے راستے جدا کر لیتا ہے ۔ 

کہتے تھے ایک پل نہ جیئں گے تیرے بغیر 

ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا   

زیر تشریح شعر میں شاعر عہد رفتہ کی حسین یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے محبوب !میں نے ایک زمانے میں تجھ سے جو محبت کی تھی اس کی شدت میں آج بھی رتی برابر فرق نہیں آیا۔لیکن مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ تیری زندگی میں اب میرا وہ مقام اور مرتبہ نہیں رہا ۔ میں تیرے لیے اب ایک بھولی بسری یاد بن چکا ہوں ۔ اس کے بالکل برعکس تو آج بھی میری زندگی میں وہی اہمیت رکھتا ہے اور میں اپنے ماضی کی طرح آج بھی تیری خاطر اپنا سب کچھ قربان  کرنے کا حوصلہ رکھتا ہوں ۔

تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں 

ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا 

شعر #8: 

ناصر اس دیار میں 

کتنا اجنبی ہے تو

 غزل کے مقطع میں ناصر کاظمی خود کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے ناصر ! انسانوں کےاس سمندر کے  درمیان میں رہ کر بھی توان سے کس قدر مختلف دکھائی دیتا ہے ۔ تیری سوچ، تیرے خیالات، تیرا انداز فکر اور زندگی کو گزارنے کا طریقہ عام لوگوں سے کس قدر مختلف ہے ۔تیرے ارد گرد تیرا کوئی ہم مزاج شخص دکھائی نہیں دیتا ۔تو سب سے الگ، جدا اور منفرد شخصیت کا مالک ہے ۔جو اپنے مزاج کے مطابق ہر کام کرنے کا عادی ہے۔

 خود کو لوگوں کے ترازو میں نہیں تولتا میں 

میری مرضی نہیں ہوتی تو نہیں بولتا میں

شاعر کے کہنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غم محبوب نے اسے دنیا و مافیہا سے بیگانہ کر دیا ہے ۔وہ اس دنیا میں رہتا تو ہے اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں سے گفت و شنید بھی کرتا ہے لیکن اسے ان لوگوں میں سے کوئی بھی شخص اپنا ہم مزاج محسوس نہیں ہوتا ۔وہ ہر ایک سے ایک قسم کی بیزاری اوراکتاہٹ  محسوس کرتا ہے ۔وہ محفلوں میں وقت گزارنے کے بجائے تنہا رہنا پسند کرتا ہے ۔اس کے رجحانات عام لوگوں سے بالکل مختلف ہو چکے ہیں ۔اور وہ اپنے اردگرد موجود حقیقی دنیا میں رہنے کے بجائے ایک تصوراتی دنیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ایک ایسی دنیا جہاں کوئی بھی اسے اس کے محبوب سے جدا نہیں کر سکتا ۔

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم 

دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم 

اس شعر کا ایک اور پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں اپنی اطاعت کے لیے بھیجا ہے ۔لیکن انسان اس حقیقت کو فراموش کر کے دنیاوی زندگی میں مگن ہو جاتا ہے ۔لیکن اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ دنیا عارضی اور نا پائیدار ہے اور آخر کار ہر ایک انسان نے لوٹ کر اللہ تعالی کے پاس جانا ہے اور اس کے روبرو پیش ہو کر اس دنیا

میں کیے جانے والے تمام اعمال کا حساب دینا ہے ۔اس کی یہ سوچ اسے اس فانی دنیا میں اجنبی بنا دیتی ہے۔کیونکہ اس دنیا میں اس کی دلچسپی بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کا ہر ایک لمحہ اللہ تعالی کی یاد میں گزارنا پسند کرتا ہے ۔دنیا اور دنیا داری میں مصروف لوگوں کے ساتھ اس کے روابط گھٹنے لگتے ہیں ۔ اور وہ خود کو ان لوگوں سے بالکل مختلف محسوس کرنے لگتا ہے ۔

مدت کے بعد پھر تیری یادوں کا سلسلہ 

اک قلب ناتواں کو توانائی دے گیا

Download Full Document

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *