غزل: فقیرانہ آئے صدا کر چلے

غزل

میر تقی میر 

شعر #1:

فقیرانہ آئے صدا کر چلے 

میاں! خوش رہو ہم دعا کر چلے

تشریح :

میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔انہوں نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ان کی شناخت اردو غزل اور اردو غزل کی شناخت ان سے ہے ۔انہوں نے غزل میں سادہ بیانی کو شعار بنایا اور

اس میں وہ سوز و گداز اور تاثیر پیدا کی کہ بڑے بڑے اساتذہ نے انہیں اپنا استاد تسلیم کیا ۔بقول حسرت

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرت 

میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں 

میر کی ذاتی زندگی درد و غم سے عبارت ہے ۔وہ ایک درویش صفت انسان تھے۔ زیر تشریح شعر میں وہ ایک فقیر کا سا انداز اپنا کر دنیا سے مخاطب ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ایک فقیر کا کام ہر حال میں دعا

دینا ہے ۔اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں یا برا؛ کوئی اس کی مدد کرنے پر تیار ہوتا ہے یا نہیں؛ اسے کسی کی جانب سے بھیک ملتی ہے یا نہیں ۔وہ ہر صورت میں اپنا دعا دینے والا کام جاری رکھتا ہے ۔اس کی زبان سے صرف دعائیہ کلمات ہی نکلتے ہیں ۔وہ خیرات دینے والے اور نہ دینے والے دونوں افراد ہی کے حق میں دعا کرتا ہے ۔لہذا میں بھی ایک فقیر کی صورت بنا کر اہل دنیا کو آواز لگاتا ہوں اور ان کی جانب سے خیر کا طالب ہوں لیکن ان کی جانب سے کسی قسم کی خیر نہ ملنے پر بھی میں انہیں بددعا نہیں دوں گا بلکہ میری طرف سے ان سب کے لیے یہی دعا ہوگی کہ اللہ تعالی انہیں خوش اور آباد رکھے ۔

ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہوگا 

اور درویش کی صدا کیا ہے 

اس شعر کا ایک اور پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر زیر تشریح شعر میں اپنے محبوب سے مخاطب ہے۔وہ دربار حسن میں صدا لگا کر اپنے محبوب کے دیدار اور توجہ کا طالب ہے اور اس سے ایک فقیر

کے انداز میں التجا کرتا ہے کہ میں تجھ سے کچھ زیادہ نہیں صرف تیرا دیدار اور محبت طلب کرتا ہوں۔ اگر تو مجھے یہ عطا کر دے تو میں تیرے لیے دعا گو رہوں گا۔ لیکن تیری طرف سے انکار کرنے پر بھی میں تیرے لیے کوئی بددعا نہیں کروں گا بلکہ میری طرف سے تجھے ہر صورت میں یہ دعا ہی دی جائے گی کہ اللہ تعالی تجھے ہمیشہ خوش، شاد اور آباد ہی رکھے  ۔

ہم فقیروں سے بے وفائی کیا 

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

شاعر ہر صورت میں اپنے محبوب کو دعا دینے کا عہد اس وجہ سے کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس  سے محبت کی جائے اسے بددعا دے کر کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچا بھی

نہیں جا سکتا ۔

شعر #2:

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم 

سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

 تشریح :

میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔انہوں نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ان کی شناخت اردو غزل اور اردو غزل کی شناخت ان سے ہے ۔انہوں نے غزل میں سادہ بیانی کو شعار بنایا اور

اس میں وہ سوز و گداز اور تاثیر پیدا کی کہ بڑے بڑے اساتذہ نے انہیں اپنا استاد تسلیم کیا ۔بقول حسرت

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرت 

میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں 

ایک عاشق کی زندگی کا مرکز و محور اس کے محبوب کی ذات ہوتی ہے ۔اس کی زندگی میں موجود ہر قسم کی خوشی و غم؛ راحت و تکلیف یہاں تک کہ اس کی زندگی اور موت بھی اس کے محبوب کے

ذات کی محتاج ہوتی ہے ۔اپنے محبوب کی قربت اسے خوشی بخشتی ہے جبکہ اس کی جدائی اسے موت کی دہلیز پر پہنچا دیتی ہے ۔تشریح طلب شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نے ابتدا میں

ہی تجھے اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ میری زندگی تیرے ساتھ کی محتاج ہو چکی ہے اور تجھ سے بچھڑ کر میں ایک پل بھی زندہ نہیں رہ پاؤں گا ۔لہذا میرے اس عہد کو پورا کرنے کا وقت آچکا ہے ۔

کتنا آسان تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں 

پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے 

تیرے بغیر میرے جینے کا کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی تیرے بغیر میری زندگی میں اب کوئی رنگ باقی ہے ۔میں ایک طویل عرصے سے تیری جدائی کا غم جھیلنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن رفتہ رفتہ یہ

 غم برداشت کرنا میرے لیے ناممکن ہو گیا ہے ۔لہذا تجھ سے کیے گئے وعدے کو نبھاتے ہوئے میں نے رخت سفر باندھ لیا ہے اور اب میں اس جہان فانی سے کوچ کرنے لگا ہوں ۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے 

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

            شعر #3:

شفا اپنی تقدیر میں ہی نہ تھی

کہ مقدور تک تو دوا کر چلے 

تشریح

میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔انہوں نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ان کی شناخت اردو غزل اور اردو غزل کی شناخت ان سے ہے ۔انہوں نے غزل میں سادہ بیانی کو شعار بنایا اور

اس میں وہ سوز و گداز اور تاثیر پیدا کی کہ بڑے بڑے اساتذہ نے انہیں اپنا استاد تسلیم کیا ۔بقول حسرت

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرت 

میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں 

زیر تشریح شعر میں شاعر اپنے محبوب کی بے رخی اور بے اعتنائی کا گلہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے محبوب! میں نے تجھے حاصل کرنے کے لیے لاکھ جتن کیے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ تجھے حاصل کرنا یا تیرا قرب پانا میری قسمت میں ہی نہیں تھا ۔میں نے تیری محبت میں مبتلا ہونے کے بعد ہر ممکن کوشش کی کہ تیری توجہ حاصل کر سکوں ۔میں کسی حد تک تیری توجہ حاصل کرنے میں تو کامیاب رہا لیکن یہ توجہ کسی بھی صورت محبت کا روپ نہ اختیار کر سکی۔ بقول شاعر

کوئی امید بر نہیں آتی 

کوئی صورت نظر نہیں آتی 

شاعر اپنی کیفیت کی وضاحت کرنے کے لیے ایک مریض کی مثال دیتا ہے وہ کہتا ہے جب کوئی صحت مند شخص کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر

ممکن کوشش کرتا ہے۔طبیب کے پاس جاتا ہے ؛احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے؛ دوائیوں کا استعمال کرتا ہے۔لیکن حتی المقدور تمام تر کوششیں کرنے کے باوجود بھی جب اسے شفا نہیں ملتی تو وہ اسے اپنا نصیب

قرار دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں بھی مریض عشق تھا اور میں نے اپنی اس بیماری سے شفا حاصل کرنے کے لیے لا تعداد کوششیں کی لیکن افسوس کی بات ہے کہ میری تمام تر کوششیں بیکار گئیں کیونکہ میرے

 نصیب ہی کھوٹے نکلے ۔میں اپنی اس حالت پر شدید غم کا شکار ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ تسلی بھی ہے کہ کہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق میں نے بغیر کوئی کوشش کیے ہار ہرگز تسلیم نہیں کی تھی میں اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتا رہا لیکن کوشش کے باوجود بھی اگر میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا تو یہ میرا نصیب ہے ۔

کوشش بھی کر، امید بھی رکھ راستہ بھی چن 

پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر 

شعر #4 :

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی 

حق بندگی ہم ادا کر چلے 

تشریح

میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔انہوں نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ان کی شناخت اردو غزل اور اردو غزل کی شناخت ان سے ہے ۔انہوں نے غزل میں سادہ بیانی کو شعار بنایا اور

اس میں وہ سوز و گداز اور تاثیر پیدا کی کہ بڑے بڑے اساتذہ نے انہیں اپنا استاد تسلیم کیا ۔بقول حسرت

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرت 

میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں 

اس شعر کی تشریح حقیقی اور مجازی دونوں ہی پہلوؤں سے کی جا سکتی ہے ۔اگر حقیقی لحاظ سے دیکھا جائے تو میر تقی میر کہتے ہیں کہ اے میرے رب! تو نے جو مہربانیاں اور عنایتیں ہم پر کی ہیں تو حق بندگی تو یہ ہے کہ ہم ہر لمحے اپنی پیشانیاں تیرے سامنے سجدے میں جھکائے رکھیں۔ہر وقت تیری عبادت اور اطاعت میں مصروف رہیں ۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ تیرے فرمانبردار بندے

مقدور بھر تیری اطاعت، فرمانبرداری اور شکر گزاری میں مصروف رہتے ہیں ۔ہم ہر ہر لمحہ اپنی پیشانی کو تیرے آگے جھکائے رکھتے ہیں کیونکہ تو ہی تمام تر عبادتوں کے لائق ہے ۔بقول شاعر: 

                                                            جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 

حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں بے مقصد پیدا نہیں کیا بلکہ اپنی ذات کی شناخت کے ساتھ ساتھ اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں ۔اور انسان کی اہم ترین ذمہ داری اپنی ذات کو پہچان کر اللہ تعالی کی ذات کو پہچاننا ہے ۔اور اللہ تعالی کی ذات کی پہچان صرف اسی وقت ممکن ہے جب انسان اللہ تعالی کے آگے سر جھکاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے حق بندگی ادا کرنے کے لیے اپنی

 جبین تیرے آگے جھکا دی ہے ۔ لیکن تو جتنا عظیم اور رحیم ہے تو تیری بارگاہ میں پہنچنے کے بعد مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی حق بندگی ادا کرنے سے قاصر ہوں ۔ اور حقیقت

 بھی یہی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو جو نعمتیں عطا کی  ہیں انسان چاہ کر بھی ان نعمتوں پر شکر ادا نہیں کر سکتا ۔

اگر مجازی معنوں میں اس شعر کو دیکھا جائے تو اس کا مفہوم کچھ اس طرح واضح ہوتا ہے کہ شاعر کے بقول جب انسان کسی سے محبت کا دعوی کرتا ہے تو محبت کی اولین شرط محبوب کے ہر حکم کے

سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے ۔شاعر اپنے محبوب سے محبت کا دعوی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے آج تک اپنے محبوب کے تمام کہے اور ان کہے احکامات دل و جان سے تسلیم کیے ہیں ۔اس نے ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی ہے جو اس کے محبوب کو پسند ہے اور ہر اس کام سے خود کو روکا ہے جو اس کے محبوب کے مزاج کے خلاف ہے۔ لیکن اتنی اطاعت گزاری کے باوجود بھی اسے یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی محبت کا

 حق ادا نہیں کر پایا ۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں 

شعر #5 :

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے

 ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

تشریح

میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔انہوں نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ان کی شناخت اردو غزل اور اردو غزل کی شناخت ان سے ہے ۔انہوں نے غزل میں سادہ بیانی کو شعار بنایا اور

اس میں وہ سوز و گداز اور تاثیر پیدا کی کہ بڑے بڑے اساتذہ نے انہیں اپنا استاد تسلیم کیا ۔بقول حسرت

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرت 

میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں 

میرتقی میر کی زندگی اور شاعری درد و غم سے عبارت ہے ۔زیر تشریح شعر میں بھی شاعر اپنے غموں اور دکھوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے اپنی تمام زندگی میں ہمیشہ مصائب اور پریشانیوں کا ہی سامنا کیا ہے اور مشکل وقت میں تسلی حاصل کرنے کے لیے اپنے دوستوں سے بھی اپنی پریشانیوں کا حال کہتا رہا ہوں ۔مجھے اپنی زندگی میں موجود غموں پر پریشانی تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ

 میں اس بات پر خوش بھی ہوں کہ میں نے عمر بھر جن مصائب اور پریشانیوں کا سامنا کیا ہے میرے دوست اس سے محفوظ رہے ہیں ۔میں اس بات پر تہ دل سے اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اللہ تعالی نے میرے دوستوں کو ان تمام رنج اور پریشانیوں سے محفوظ رکھا ہے جس کا میں شکار رہا ہوں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے پریشانیوں کا شکار دیکھ کر میرے دوست اپنے رنج اور غم میرے گوش گزار کرنے سے پرہیز کرتے

 رہے ہوں۔اگر کسی کو کوئی تکلیف پہنچی بھی ہو تو اس نے اس کا میرے سامنے اظہار نہ کیا ہو ۔اگر صورتحال یہ ہے تو مجھے خود پر افسوس ہے کہ میں ہی تمام عمر اپنے دوستوں کو اس نے تکلیف بھرے حالات سناتا

رہا جبکہ مجھے اس بات کا ادراک ہی نہ ہو سکا کہ ان کی اپنی زندگی میں بھی کوئی غم، تکلیف یا پریشانی موجود ہے ۔ شاید ان کے دوست اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ 

غم کی توہین نہ کر غم کی شکایت کر کے 

دل رہے یا نہ رہے عظمت غم رہنے دے 

شاعر کے کہنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں آنے کے بعد انسان بہت سے افراد کے ساتھ اپنا اچھا اور برا وقت گزارتا ہے اور بہت سے ہم مزاج افراد اس کے دوست بھی بن جاتے ہیں لیکن موت اس زندگی کی ایک  تلخ حقیقت ہے ۔لہذا وہ افراد جن کے بغیر ہم سانس لینے کا تصور نہیں کر سکتے ایک مقررہ وقت پر انہیں اس دنیا کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اور ہم اپنے غمزدہ دل کے ساتھ انہیں

 الوداع کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔زیر تشریح شعر میں شاعر اس بات پر شکر گزار دکھائی دیتا ہے کہ اس کی موت کا وقت آگیا ہے اور اب وہ اپنے دوستوں کو الوداع کہہ کر اس دنیا سے جا رہا ہے۔اور اس کی

جدائی میں اس کے دوست نہایت رنجیدہ اور غمزدہ دکھائی دیتے ہیں  لیکن شاعر اپنے دنیا کو چھوڑنے پر دکھی ہونے کے بجائے اس بات پر خوش ہے کہ اسے اپنے دوستوں کو الوداع نہیں کہنا پڑا یعنی ان کی جدائی

کا دکھ نہیں دیکھنا پڑا بلکہ وہ اپنے دوستوں میں سب سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔

ایک دن کہنا ہی تھا ایک دوسرے کو الوداع

آخرش سالم جدا ایک بار تو ہونا ہی تھا

شعر #6:

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر 

جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے 

تشریح

میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے ۔انہوں نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر ان کی شناخت اردو غزل اور اردو غزل کی شناخت ان سے ہے ۔انہوں نے غزل میں سادہ بیانی کو شعار بنایا اور

اس میں وہ سوز و گداز اور تاثیر پیدا کی کہ بڑے بڑے اساتذہ نے انہیں اپنا استاد تسلیم کیا ۔بقول حسرت

شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرت 

میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں 

زیر تشریح شعر میر تقی میر کی غزل کا مقطع ہے۔ جس میں انہوں نے اپنا تخلص استعمال کیا ہے ۔میر کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔اسے بہت سی نعمتیں اور صلاحیتیں

عطا کی گئی ہیں اور اسے زمین پراللہ تعالی کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے ۔انسان کو بے تحاشہ اختیارات سے نوازنے کے بعد اسے صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے اور اسے صحیح کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ غلط کاموں سے روکا گیا ہے ۔اتنی عطاؤں سے نوازے جانے کے بعد اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس دنیا میں آنے کے بعد اپنی صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہے ۔اپنی صلاحیتوں سے اہل دنیا کو فائدہ دینے کی کوشش کرتا ہے یا اس سے دنیا کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔

شاعر اسی پس منظر کو ذہن میں رکھ کر نہایت پریشانی کا شکار ہے کیونکہ اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالی کی طرف سے گزارنے کے لیے دیا جانے والا وقت اب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالی یا روز آخرت کی طرف واپسی کا سفر شروع ہونے والا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ اگر میری زندگی کے میری زندگی کے اختتام پر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ کیا میں اپنے فرائض سرانجام دینے میں کامیاب ہوا ہوں ؟کیا

جس مقصد کے لیے میری انسان کے طور پر تخلیق کی گئی تھی اور اس دنیا میں بھیجا گیا تھا میں وہ مقصد حاصل کر پایا ہوں ؟تو مجھے تو یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں نے اس دنیا میں رہ کر اپنا وقت صرف عیش و عشرت میں ہی گزار دیا اور کوئی ایسا کام نہ کر پایا جو مجھے رب تعالی کے حضور میں سرخرو کر سکے ۔بقول نظیر اکبر آبادی :

جس کام کے کرنے کو تو آیا تھا اے نظیر 

خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *